Monday, March 25, 2013

صلوات بر فاطمہ علیھا السلام


۱۳ جمادی الاولیٰ روز شہادت صدیقہ طاہرہ بر موالیان آنحضرت تسلیت باد

صلوات بر فاطمہ علیھا السلام


اللهم صل على محمد وأهل بيته، وصل على البتول الطاهرة الصديقة المعصومة، التقية النقية الرضية الزكية الرشيدة، المظلومة المقهورة، المغصوبة حقها، الممنوعة إرثها، المكسورة ضلعها، المظلوم بعلها، المقتول ولدها، فاطمة بنت رسولك، وبضعة لحمه، وصميم قلبه، وفلذة كبده، والنخبة منك له، والتحفة خصصت بها وصيه، وحبيبه المصطفى، وقرينه المرتضى، وسيدة النساء، ومبشرة الأولياء، حليفة الورع والزهد، وتفاحة الفردوس والخلد، التي شرفت مولدها بنساء الجنة، وسللت منها أنوار الأئمة، وأرخيت دونها حجاب النبوة. اللهم صل عليها صلاة تزيد في محلها عندك، وشرفها لديك، ومنزلتها من رضاك، وبلغها منا تحية وسلاماً، وآتنا من لدنك في حبها فضلاً وإحساناً ورحمة وغفراناً، إنك ذو العفو الكريم.
سوال : جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ نے فدک جناب فاطمہ (س) کو ہبہ کر دیا تھا تو پھر بی بی نے خطبہ فدک میں میراث اور حق وراثت کا ذکر کیوں کیا ؟
جواب : جس وقت جناب فاطمہ (س) کو پتہ چلا کہ ابوبکر نے فدک پر قبضہ کر لیا اور فدک میں کام کرنے والے افراد کو وہاں سے نکال دیا تو بی بی نے ابوبکر سے جاکر اپنے حق کا مطالبہ کیا تو اس نے ہبہ کا انکار کر کے کہا کہ اگر تمہارے پاس ہبہ کے لئے کوئی گواہ ہے تو لاؤ ، بی بی نے گواہ کے طور پر مولائے کائنات علیہ السلام ، امام حسن علیہ السلام و امام حسین علیہ السلام اور جناب ام ایمن(رض) کو پیش کیا تو غاصب کی نیت و پہلے ہی سے خراب تھی اسے فدک واپس کرنا منظور تھا ہی نہیں اس لئے جواب دیا کہ علی کو فدک سے فائدہ ملتا ہے اس لئے ان کی گواہی قبول نہیں ہے ، حسنین نا بالغ ہیں اور ام ایمن فصیح عربی میں گواہی نہیں دے سکتیں اس لئے ان کی گواہی بھی قابل قبول نہیں ہے ،
البتہ بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ ابو بکر نے ان حضرات کی گواہی مان کر ایک نوشتہ بھی لکھ دیا لیکن عمر نے وہ نوشتہ چھین کر پھاڑ دیا یا جلا دیا ۔
بہر حال جب بی بی اس جانب سے مایوس ہو گئیں تو آپ نے میراث کا دعویٰ پیش کیا لیکن بہر حال ابوبکر کی نیت خراب تھی اس لئے جناب زہرا(س) کے تمام تر احتجاج و استدلال کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ نبی نے فرمایا ہے کہ ہم انبیاء کسی کو اپنا وارث نہیں بناتے ہیں ۔
حکومت کا دونوں موقف خلاف شرع ہے چونکہ فدک فاطمہ کے ہاتھوں میں تھا اس لئے ان سے گواہ طلب کرنا حکم شریعت کے خلاف ہے اور دوسرا موقف یعنی نبی کی حدیث تو چونکہ یہ حدیث خبر واحد ہے اور صرف ابو بکر نے نقل کیا ہے اس لئے قرآنی آیات کے مقابلہ میں اس حدیث کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔